تحریر: ابراہیم خان
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ چند برس پہلے تک جو چیزیں سائنس فکشن کا حصہ سمجھی جاتی تھیں، وہ آج ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے انسان کی زندگی کو نئی سمت دے دی ہے۔ لیکن ہر نئی ایجاد کے ساتھ ایک نیا خطرہ بھی جنم لیتا ہے، اور یہی حال اب سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جعلی اے آئی ویڈیوز کا ہے۔
یہ ویڈیوز نہ صرف عوام کو دھوکا دیتی ہیں بلکہ سچائی اور جھوٹ کے درمیان فرق کو اتنا دھندلا کر دیتی ہیں کہ بعض اوقات سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ حقیقت کہاں ہے اور فریب کہاں۔
حقیقت اور فریب کے درمیان باریک لکیر
گزشتہ کچھ مہینوں میں سوشل میڈیا پر جعلی ویڈیوز کی ایک ایسی لہر اٹھی ہے جس نے عام صارفین سے لے کر عالمی میڈیا تک سب کو الجھا دیا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اے آئی کی مدد سے بنائی جانے والی ویڈیوز نے اربوں ویوز حاصل کیے۔
کبھی نیو یارک کے سب وے میں دو لوگوں کی ویڈیو وائرل ہوئی جو بعد میں جعلی نکلی، کبھی کسی معروف رہنما کی تقاریر کو مصنوعی انداز میں تبدیل کر کے پیش کیا گیا۔
یہ سب محض تفریح نہیں بلکہ ایک ایسا رجحان ہے جو حقیقت اور فریب کے درمیان لکیر کو مٹا رہا ہے۔
امریکی ماہرِ کمپیوٹر سائنس پروفیسر ہینی فرید کے مطابق اب سچ اور جھوٹ میں تمیز محض چند سیکنڈ کے مشاہدے سے ممکن نہیں رہی۔
یہ بھی پڑھیں : ورچوئل دنیا کے قیدی: سوشل میڈیا اور نوجوان نسل
مصنوعی ذہانت کا کردار اور تیز رفتار ترقی
پچھلے دو برسوں میں مصنوعی ذہانت نے ویڈیو سازی کے میدان میں حیرت انگیز پیش رفت کی ہے۔
اب کوئی بھی شخص بغیر خاص تکنیکی علم کے، محض چند جملے لکھ کر ایسی ویڈیو تیار کر سکتا ہے جو بظاہر بالکل حقیقی لگتی ہے۔
گوگل ویو اور اوپن اے آئی سورا جیسے نظام اب ایسے کلپس تخلیق کرتے ہیں جن میں چہروں کی حرکات، پس منظر کے مناظر اور آواز کا تاثر سب کچھ حقیقی معلوم ہوتا ہے۔
لیکن انہی ویڈیوز میں موجود معمولی تضادات اکثر سچائی کی چنگاری بن جاتے ہیں۔ مثلاً ہموار جلد، غیر فطری روشنی، یا لباس کے پیٹرن میں معمولی تبدیلی۔
یہ وہ علامات ہیں جو بتاتی ہیں کہ تصویر یا ویڈیو دراصل کسی مشین کی تخلیق ہے، انسان کی نہیں۔
پہچان کے بنیادی اصول
ڈریکسل یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو اسٹام کے مطابق اگر کوئی ویڈیو حد سے زیادہ صاف یا حد سے زیادہ دھندلی لگے، تو دونوں صورتوں میں شک کرنا چاہیے۔
اے آئی ویڈیوز عام طور پر مختصر ہوتی ہیں، چھ سے دس سیکنڈ کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طویل ویڈیوز تیار کرنا مہنگا اور وقت طلب ہوتا ہے، اور جتنی لمبی ویڈیو ہوگی، اتنا ہی امکان ہے کہ کہیں نہ کہیں خامی ظاہر ہو جائے۔
پروفیسر ہینی فرید کہتے ہیں تین عناصر ہمیشہ دیکھنے چاہییں ریزولوشن، معیار اور طوالت۔ اگر تینوں میں غیر توازن ہو تو ویڈیو کے جعلی ہونے کا خدشہ ہے۔
بعض اوقات یہ ویڈیوز شعوری طور پر دھندلی بنائی جاتی ہیں تاکہ مصنوعی پہلو چھپ جائیں۔ جیسے کسی پرانے موبائل یا سکیورٹی کیمرے کا تاثر دینا، تاکہ دیکھنے والا اسے حقیقت سمجھے۔
جعلی ویڈیوز اور سوشل میڈیا کا اثر
سوشل میڈیا پر فریب کاری کوئی نئی بات نہیں، مگر مصنوعی ذہانت نے اس رجحان کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔
ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر لاکھوں صارفین روزانہ ایسی ویڈیوز دیکھتے ہیں جن کی سچائی کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔
ایک وائرل کلپ اگر جذباتی یا چونکانے والا ہو تو چند گھنٹوں میں لاکھوں بار شیئر ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں کئی ایسی ویڈیوز گردش کرتی رہیں جن میں معروف شخصیات کو ایسی حرکات کرتے دکھایا گیا جو دراصل ان کی نہیں تھیں۔
یہ ویڈیوز نہ صرف عوامی رائے کو متاثر کرتی ہیں بلکہ سیاسی اور سماجی فضا میں بے یقینی پھیلاتی ہیں۔
اعتماد کا بحران
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں خبروں کی تصدیق کا رجحان کم ہے، وہاں جعلی ویڈیوز نے ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔
عام صارفین کے پاس نہ وقت ہے، نہ آلات کہ وہ ہر ویڈیو کی سچائی پرکھ سکیں۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور سوشل میڈیا پیجز کی طرف سے پھیلائی گئی اے آئی ویڈیوز اکثر عوامی رائے کو گمراہ کر دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے ماہرین اب ڈیجیٹل خواندگی پر زور دے رہے ہیں۔ یعنی صارفین کو یہ سکھانا کہ کسی ویڈیو یا تصویر پر فوراً یقین نہ کریں، بلکہ اس کے ماخذ، انداز اور سیاق و سباق کا جائزہ لیں۔
دنیا میں جعلی ویڈیوز کے سنگین اثرات
عالمی سطح پر یہ مسئلہ اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ حکومتیں، تعلیمی ادارے اور ٹیکنالوجی کمپنیاں مل کر حل تلاش کر رہی ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں ڈیجیٹل ویری فیکیشن کے نئے نظام متعارف ہو رہے ہیں جن کے تحت کیمرے خود ویڈیو میں سچائی کے نشانات محفوظ کرتے ہیں تاکہ ثابت ہو سکے کہ یہ اصلی ہے۔
پروفیسر اسٹام کے مطابق ہر ویڈیو اپنے اندر ایسے باریک نشانات رکھتی ہے جو آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ جیسے جرم کے مقام پر فنگر پرنٹس، ہم ان نشانات کو تلاش کرنے کے لیے نئی تکنیکیں تیار کر رہے ہیں۔
اسی طرح بعض ٹیکنالوجی کمپنیاں سچائی کے ڈیجیٹل ٹوکن پر کام کر رہی ہیں ایک ایسا نظام جس میں ویڈیو یا تصویر خود اعلان کرے کہ وہ اصلی ہے یا مصنوعی۔
مستقبل کے خطرات
ٹیکنالوجی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ماہرین کے مطابق اگلے دو برسوں میں یہ نشانیاں بھی ختم ہو سکتی ہیں۔
یعنی جعلی ویڈیوز اتنی حقیقت نما ہو جائیں گی کہ انہیں دیکھ کر انسان کا ذہن بھی فریب کھا جائے گا۔
یہ صورتحال نہ صرف میڈیا بلکہ عدالتی نظام، تعلیم، اور سیاست کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
جب کسی کی آواز، چہرہ یا الفاظ مصنوعی طور پر تبدیل کیے جا سکیں، تو عدالتوں میں ثبوت کی حیثیت مشکوک ہو جائے گی۔
یہی وہ چیلنج ہے جسے پروفیسر اسٹام اکیسویں صدی کا سب سے بڑا انفارمیشن سکیورٹی بحران قرار دیتے ہیں۔
عوام جعلی ویڈیوز کی پہچان کیسے کریں
کوالٹی پر غور کریں، اگر ویڈیو غیر معمولی طور پر ہموار یا دھندلی ہے تو شک کیجئے۔
مدت دیکھیں، زیادہ تر اے آئی ویڈیوز بہت مختصر ہوتی ہیں۔
چہرے اور حرکات پر توجہ دیں، اگر آنکھوں کی جنبش یا ہونٹوں کی حرکت الفاظ سے میل نہ کھائے تو یہ مصنوعی ہے۔
پس منظر کا جائزہ لیں، فریم کے کناروں یا روشنی کے عکس میں تضاد ہو تو یہ نشانی ہے۔
ماخذ کی تصدیق کریں، ویڈیو کہاں سے آئی؟ کس نے شیئر کی؟ کیا کسی معتبر خبررساں ادارے نے اسے شائع کیا؟
اعتماد سے پہلے تحقیق کریں، اگر کوئی ویڈیو غیر معمولی یا جذباتی لگے، تو فوراً اسے آگے نہ بڑھائیں۔
ذمہ داری اور تعلیم ، ایک مستقل حل
ڈیجیٹل ماہر مائیک کال فیلڈکے مطابق، اب ویڈیو اور تصویر بھی متن کی طرح ہیں، فرق صرف ماخذ کا ہے
یعنی ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ سچائی کا معیار ویڈیو کی خوبصورتی نہیں بلکہ اس کا منبع ہے۔
پاکستان میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکول اور کالجز میں ڈیجیٹل شعورپڑھایا جائے، میڈیا ادارے فیکٹ چیکنگ یونٹس قائم کریں، حکومت سائبر پالیسی کو جدید بنائے تاکہ مصنوعی ذہانت کے اس نئے دور میں سچائی کی حفاظت کی جا سکے۔
سچائی کی تلاش اب انسانی ذمہ داری ہے
مصنوعی ذہانت نے جہاں سہولت دی ہے، وہیں حقیقت کے چہرے پر نقاب بھی ڈال دیا ہے۔ اب سچائی کو پہچاننا صرف ٹیکنالوجی کا نہیں بلکہ انسانی شعورکا امتحان ہے۔
اگر ہم نے تحقیق، تعلیم اور ذمہ داری کے ساتھ اس مسئلے کا مقابلہ نہ کیا، تو آنے والے وقت میں حقیقت ایک افسانہ بن جائے گی۔
لیکن امید کی کرن ابھی باقی ہے۔ دنیا بھر کے محققین، ماہرین اور صحافی اس فریب کے خلاف متحد ہیں۔
ہمیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ آن لائن دنیا میں ہر تصویر، ہر ویڈیو اور ہر خبر پر یقین کرنے سے پہلے سوال اٹھانا ہی سچائی کی پہلی نشانی ہے




Great