تحریر: ابو قاسم
گزشتہ دو دہائیوں میں سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک “گلوبل ولیج” میں بدل دیا ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور ایکس (ٹوئٹر) جیسے پلیٹ فارمز نے رابطے کے انداز، معلومات کی فراہمی، اور اظہارِ خیال کے طریقے یکسر بدل ڈالے ہیں۔ مگر جہاں ان ذرائع نے سہولت فراہم کی، وہیں انہوں نے نوجوان نسل پر نفسیاتی، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے گہرے اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ آج کے نوجوان کی شناخت، سوچ، ترجیحات اور طرزِ زندگی پر سوشل میڈیا کا اثر ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
ڈیجیٹل انقلاب اور نئی نسل کا لائف اسٹائل
سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی روزمرہ زندگی میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ آج کے نوجوان کی صبح نوٹیفکیشنز سے شروع اور رات “نیوز فیڈ” پر ختم ہوتی ہے۔ وہ دنیا بھر کی معلومات لمحوں میں حاصل کر سکتا ہے مگر اسی رفتار نے وقت کے نظم و ضبط اور ذہنی سکون کو متاثر کیا ہے۔
مطالعات کے مطابق، پاکستان میں 18 سے 30 سال کے تقریباً 70 فیصد نوجوان روزانہ اوسطاً 3 سے 5 گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ یہ وقت تعلیمی و تخلیقی سرگرمیوں کے لیے کم بچتا ہے۔
سوشل میڈیا اور خود اعتمادی
انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر خوبصورتی، فیشن، یا لائف اسٹائل کے مقابلے نے نوجوانوں میں احساسِ کمتری کو جنم دیا ہے۔
نفسیاتی ماہرین کے مطابق، مستقل “لائکس” اور “کمنٹس” کی دوڑ میں نوجوان اپنی اصل شخصیت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنی تصاویر، انداز اور خیالات کو دوسروں کی پسند کے مطابق ڈھالنے لگتے ہیں۔ اس طرح “ورچوئل شناخت” (Virtual Identity) حقیقی شخصیت پر غالب آ جاتی ہے۔
نفسیاتی دباؤ اور ڈپریشن
عالمی ادارۂ صحتکی ایک رپورٹ کے مطابق، سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال اور ڈپریشن کے درمیان گہرا تعلق پایا گیا ہے۔
نوجوان جب دوسروں کی “پرفیکٹ لائف” دیکھتے ہیں تو اپنے حالات سے مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق، سوشل میڈیا پر روزانہ 4 گھنٹے سے زیادہ وقت گزارنے والے نوجوانوں میں ڈپریشن کے امکانات دوگنا بڑھ جاتے ہیں۔
“FOMO” یعنی Fear of Missing Out (کسی چیز سے محروم رہ جانے کا خوف) بھی ان کے ذہنوں میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔
تعلیمی کارکردگی پر اثرات
سوشل میڈیا کے غیرضروری استعمال نے نوجوانوں کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کیا ہے۔
طالب علم اکثر رات گئے تک اسکرین کے سامنے رہتے ہیں، نتیجتاً نیند کی کمی، توجہ میں خلل، اور حافظے کی کمزوری جیسی شکایات بڑھ گئی ہیں۔
نے نوجوانوں میں سنجیدہ مطالعے کا رجحان کم کر دیا ہے۔
کئی ماہرین تعلیم کے مطابق، یہ رجحان “Short Attention Span Generation” کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
سماجی تعلقات کی کمزوری
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا مقصد لوگوں کو قریب لانا تھا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
نوجوان اب آن لائن زیادہ، مگر حقیقی زندگی میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔
خاندانی گفتگو، دوستوں سے براہِ راست ملاقات، اور اجتماعی سرگرمیاں کم ہو گئی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق، 60 فیصد نوجوان اپنے قریبی دوستوں سے زیادہ وقت “آن لائن چیٹ” میں گزارتے ہیں۔ نتیجتاً حقیقی تعلقات میں خلوص اور گہرائی کم ہو رہی ہے۔
اخلاقی اقدار اور مواد کی آزادی
سوشل میڈیا پر معلومات تک آسان رسائی کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی مواد، فیک نیوز، اور منفی رجحانات نے نوجوانوں کی اخلاقی سوچ کو بھی متاثر کیا ہے۔
غلط خبریں، پروپیگنڈا، اور جھوٹے “ٹرینڈز” نوجوان ذہنوں میں کنفیوژن پیدا کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے، پاکستان میں ڈیجیٹل لٹریسی کم ہونے کی وجہ سے نوجوان آسانی سے گمراہ کن معلومات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے فائدے
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ سوشل میڈیا صرف نقصان دہ ہے۔ اس نے نوجوانوں کے لیے علم، روزگار، اور اظہارِ رائے کے دروازے بھی کھولے ہیں۔
ہزاروں نوجوان آن لائن کاروبار ( ) اور فری لانسنگ سے آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔
تعلیمی چینلز اور ای لرننگ پلیٹ فارمز نے خود سیکھنے کے رجحان کو فروغ دیا۔
سوشل ایکٹیوزم، آگاہی مہمات، اور سماجی انصاف کے موضوعات پر نوجوانوں نے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کو ذہنی توازن، تعلیمی فائدے، اور سماجی شعور کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
والدین اور اساتذہ کا کردار
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں پر پابندیاں لگانے کے بجائے ڈیجیٹل تربیت دیں۔
گھر میں “ٹیک فری ٹائم” (Tech-Free Time)مقرر کریں جس میں سب اسکرین سے دور رہیں۔
اساتذہ کو بھی نصاب میں “ڈیجیٹل لٹریسی” کے مضامین شامل کرانے چاہئیں تاکہ طلبہ آن لائن دنیا میں خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
ریاست اور اداروں کی ذمہ داری
حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے لیے ڈیجیٹل ہیلتھ پالیسی وضع کرے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز مواد، غلط خبریں اور غیر اخلاقی مواد کے خلاف سخت ضابطہ بنایا جائے۔
ساتھ ہی مثبت مہمات — جیسے “ڈیجیٹل لائف بیلنس” یا “ریئل کنورسیشن ڈے” — شروع کی جائیں تاکہ نوجوان صحت مند آن لائن عادات اپنا سکیں۔
سوشل میڈیا نہ تو مکمل نقصان دہ ہے اور نہ ہی مکمل مفید — یہ صرف ایک اوزار (Tool) ہے جس کا اثر استعمال کرنے والے کے رویّے پر منحصر ہے۔
اگر نوجوان اسے شعور، سیکھنے، اور ترقی کے لیے استعمال کریں تو یہی پلیٹ فارم ان کے لیے کامیابی کا زینہ بن سکتا ہے۔
لیکن اگر اس کا استعمال وقت ضائع کرنے، دوسروں سے موازنہ کرنے، یا غلط رجحانات کے پیچھے بھاگنے میں ہو تو یہ ذہنی سکون، اخلاقی توازن اور خاندانی تعلقات سب کچھ چھین لیتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ نوجوان نسل ڈیجیٹل شعور کے ساتھ آگے بڑھے — تاکہ سوشل میڈیا ان کا غلام بنے، آقا نہیں۔



