پاک چین تعلقات:  دلوں میں لکھی دوستی کی کہانی  

تحریر: ساجد حسین           

پاکستان اور چین کی دوستی کا ذکر آتے ہی ذہن میں وہ مشہور جملہ گونجتا ہے، “یہ رشتہ ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہرا اور شہد سے میٹھا ہے۔” بظاہر یہ الفاظ ایک شاعرانہ استعارہ معلوم ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ تعلق انہی معنوں کی طرح مضبوط، وسیع اور پائیدار ہے۔ آج جب دنیا کی سیاست تیز ہواؤں کی طرح بدل رہی ہے، تو یہ دوستی ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو ہر طوفان کے باوجود اپنی جڑوں میں مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ میں جب بھی کسی چینی وفد کو اسلام آباد کی سڑکوں پر مسکراتے چہروں کے ساتھ دیکھتا ہوں، تو دل کہتا ہے یہ دوستی صرف حکومتوں کی نہیں بلکہ عوام کی دھڑکنوں میں رچی بسی ہے۔

وقت کی کسوٹی پر پرکھا رشتہ

دنیا میں تعلقات اکثر مفادات کے سائے میں بنتے اور ٹوٹتے ہیں، لیکن پاک چین رشتہ اس کے برعکس ہے۔ پاکستان نے 1950ء میں چین کو تسلیم کر کے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا، جب کہ عالمی طاقتیں اس سے گریزاں تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان خود بھی ایک نوخیز ملک تھا، مگر اس کے وژن نے آنے والے برسوں کی بنیاد رکھ دی۔ 1965ء کی جنگ کے دوران جب پاکستان مشکلات میں گھرا تھا، تو چین ایک بھائی کی طرح اس کے ساتھ کھڑا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستانی عوام کی زبان پر ایک ہی نعرہ آیا: “پاک چین دوستی زندہ باد”۔ 1970ء کی دہائی میں پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان سفارتی دروازے کھولنے میں پل کا کردار ادا کیا، جو آج بھی تاریخ کے سنہری باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یوں یہ رشتہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف پروان چڑھا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے فخر کا سرمایہ بن گیا۔

سی پیک کی روشنی میں نئے خواب

کہا جاتا ہے کہ معیشت ہی سیاست اور تعلقات کی اصل بنیاد ہوتی ہے۔ اگر آپ گوادر کی بندرگاہ پر کھڑے ہو کر وسیع سمندر کو دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ صرف پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ مستقبل کی امید ہے۔ 2015ء میں شروع ہونے والا چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اس امید کو حقیقت میں ڈھال رہا ہے۔ یہ صرف ایک منصوبہ نہیں بلکہ ایک خواب ہے جو دونوں ملکوں کی نسلوں کو جوڑ رہا ہے۔ جب ہزاروں نوجوان سی پیک کے منصوبوں پر روزگار پاتے ہیں، جب نئے کارخانے بنتے ہیں اور جب ویران پہاڑوں میں بجلی کی لائٹس جگمگانے لگتی ہیں، تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دوستی کس طرح زندگیوں کو بدل رہی ہے۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ناقدین قرضوں کے بوجھ اور منصوبوں کی سست روی پر سوال اٹھاتے ہیں، مگر سچ یہی ہے کہ ہر بڑے خواب کو حقیقت بننے کے لیے آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

ہتھیاروں سے بڑھ کر اعتماد کی کہانی

جب کبھی پاکستان کی سلامتی کی بات آتی ہے، تو چین کا نام قدرتی طور پر ذہن میں آتا ہے۔ دفاع کے میدان میں دونوں ممالک کا تعاون صرف اسلحے یا ٹیکنالوجی تک محدود نہیں بلکہ یہ اعتماد اور بھائی چارے کی علامت ہے۔ JF-17 تھنڈر کی گھن گرج سے لے کر میزائل ٹیکنالوجی اور نیول تعاون تک، یہ شراکت داری ایک ایسی ڈھال کی مانند ہے جو پاکستان کو محفوظ رکھتی ہے۔ میں نے کئی مرتبہ دفاعی ماہرین کو یہ کہتے سنا ہے کہ “چین وہ دوست ہے جس نے پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔” ہر سال ہونے والی مشترکہ فوجی مشقیں نہ صرف عسکری مہارت کو بڑھاتی ہیں بلکہ یہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی ہیں کہ یہ دوستی محض کاغذی نہیں بلکہ عملی ہے۔-

زبان، ثقافت اور دلوں کا میل

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اصل دوستی دلوں میں پروان چڑھتی ہے، اور پاک چین تعلقات کی اصل طاقت یہی عوامی روابط ہیں۔ جب پاکستانی طلبہ بیجنگ، شنگھائی یا گوانگ ژو کی جامعات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو وہ محض ڈگریاں نہیں بلکہ دو قوموں کے درمیان پل لے کر واپس آتے ہیں۔ پاکستان میں قائم کنفیوشس انسٹیٹیوٹ نے ہزاروں نوجوانوں کو چینی زبان سے آشنا کیا، اور بدلے میں چینی طلبہ نے اردو اور پاکستانی ثقافت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے نوجوان نہ صرف چینی ڈرامے دیکھتے ہیں بلکہ سوشی اور ہاٹ پاٹ جیسے کھانے بھی پسند کرنے لگے ہیں۔ دوسری طرف بیجنگ اور شانگھائی کے ریسٹورنٹس میں پاکستانی بریانی اور کباب اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ یہی وہ تعلق ہے جو سرکاری معاہدوں سے بڑھ کر عوام کو قریب لا رہا ہے۔

خطے کی سیاست میں کلیدی کردار

پاکستان اور چین کی دوستی کو عالمی سیاست کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور پاکستان اس کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ گوادر سے کاشغر تک بننے والا زمینی راستہ صرف تجارتی راہداری نہیں بلکہ دنیا کے نقشے پر ایک نئی جغرافیائی حقیقت ہے۔ پاکستان کے لیے یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کا سب سے قریبی دوست عالمی طاقت بن چکا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر چین کا موقف، ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی حمایت، اور عالمی اداروں میں یکجہتی—یہ سب اس دوستی کی عملی مثالیں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ رشتہ محض دو ملکوں کا نہیں بلکہ خطے کی سیاست میں توازن قائم کرنے کا ضامن بھی ہے۔

خوابوں کے راستے میں رکاوٹیں

یہ کہنا کہ پاک چین تعلقات مثالی ہیں، درست ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مثالی رشتے کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کو سکیورٹی خدشات لاحق ہیں، اور بلوچستان میں بدامنی اس کا سب سے بڑا سبب ہے۔ عالمی سطح پر بھی بعض طاقتیں اس دوستی کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ شراکت داری ان کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تجارتی توازن بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان چین سے زیادہ درآمد کرتا ہے اور برآمدات میں کمزور ہے۔ تاہم یہ چیلنجز اس دوستی کی جڑوں کو کمزور نہیں کرتے بلکہ انہیں مزید گہرا کر دیتے ہیں۔ جیسے ہر درخت کو طوفان مضبوط بناتا ہے، ویسے ہی یہ مشکلات اس تعلق کو مزید پائیدار بنا رہی ہیں۔

امیدوں کا سفر

اگر آپ مستقبل کے آئینے میں جھانکیں تو آپ کو یہ رشتہ مزید وسیع اور مضبوط دکھائی دے گا۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ صنعتوں، زراعت اور ٹیکنالوجی پر مرکوز ہے، جو پاکستان کے لیے معاشی انقلاب کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستانی نوجوان، جو دنیا کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، اس تعاون سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دفاعی شعبے سے لے کر ڈیجیٹل معیشت اور عوامی روابط تک، یہ شراکت داری ایک ایسے خواب کی مانند ہے جو ہر دن حقیقت کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ مستقبل کے تجزیہ کار یقین سے کہتے ہیں کہ یہ دوستی نہ صرف پاکستان کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوگی بلکہ پورے خطے کے امن اور ترقی کی ضمانت بھی بنے گی۔

آخر میں میں یہی کہوں گا کہ پاکستان اور چین کی دوستی محض سیاسی بیانات یا سرکاری معاہدوں تک محدود نہیں بلکہ یہ وہ کہانی ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ یہ رشتہ اس وقت اور بھی قیمتی لگتا ہے جب دنیا میں اتحاد ٹوٹتے اور نئے اتحاد بنتے دیکھے جاتے ہیں۔ پاک چین تعلقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ خلوص اور اعتماد پر مبنی تعلقات ہمیشہ دیرپا ہوتے ہیں۔ آنے والے برسوں میں جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو یہ دوستی واقعی “ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری” ہی محسوس ہوگی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top